مولانا طارق جمیل صاحب فرماتے هیں..
کراچی میں میرا ایک شاگرد هے اس کی مسجد کے پاس ایک خاتون رهتی تهی.. وه (زنا کے لیے) لڑکیاں سپلائی کیا کرتی تهی.. میرے شاگرد نے اس خاتون کے لڑکے سے دوستی کر لی.. پهر ایک دن اس لڑکے کو میرا ایک بیان دے دیا اور کہا کہ اسے گهر جا کر سننا..
وه گهر آیا اور بیان سننے لگا.. گهر میں اس کی امی بهی کام کرتے کرتے سن رهی تهی.. پهر کام سے فارغ هو کر بیٹے سے کہا.. ایک بار اور سناؤ.. اس نے سنا دیا.. کہا.. ایک بار اور سناؤ.. اس پهر سے سنا دیا.. پهر پوچها.. یہ بیان کس نے دیا..؟
بیٹے نے کہا.. اپنے مسجد کے امام صاحب نے.. کہا.. مجھے لے جاؤ اس کے پاس.. وه لے آیا اسے امام صاحب کے پاس.. اس خاتون نے پوچها.. "یہ کون هے جو کہتا هے جتنے بهی گناہ هوں توبہ کرنے سے معاف هو جاتے هیں..؟"
امام صاحب نے کہا.. "یہ میرے استاد طارق جمیل هیں.."
خاتون نے کہا.. "یہ جو کہتا هے کہ جتنے بهی گناہ هوں توبہ کرنے سے معاف هو جاتے هیں تو کیا معاف هو جاتے هیں..؟"
امام صاحب نے کہا.. "هاں معاف هو جاتے هیں.."
تو اس خاتون نے کہا کہ "آپ گواہ رهنا میں نے توبہ کرلی' میں نے توبہ کرلی.."
رمضان کے مہینے میں وه رات مسجد میں تراویح میں آتی اور یہ دعا کرتی تهی کہ اے اللہ ! اگر میری توبہ قبول هوگئ تو مجهے اٹها لے' مجهے اٹها لے.. اللہ کا کرنا کہ 29 ویں کی شب سجدے کی حالت میں اس خاتون کی روح پرواز کر گئی..
زندگی کیسے گزری اور اختتام کیسے هوا____________


Similar Threads: