سب داغ ہائے سینہ ہویدا ہمارے ہیں
اب تک خیام دشت میں برپا ہمارے ہیں
وابستگانِ لشکرِ صبر و رجا ہیں ہم
جنگل میں یہ نشان و مصلّیٰ ہمارے ہیں
نوکِ سناں پہ مصحفِ ناطق ہے سر بلند
اونچے عَلَم تو سب سے زیادہ ہمارے ہیں
یہ تجھ کو جن زمین کے ٹکڑوں پہ ہے غرور
پھینکے ہوئے یہ اے سگِ دنیا! ہمارے ہیں
سر کر چکے ہیں معرکۂ جوئے خوں سو آج
روئے زمیں پہ جتنے ہیں دریا، ہمارے ہیں*
*۔ آخری شعر کا مصرع ثانی میر مونسؔ کا ہے
****
Similar Threads:
Bookmarks