خشک ہوتا ہی نہیں دیدۂ تر پانی کا
یم بہ یم آج بھی جاری ہے سفر پانی کا
دیکھنے میں وہی تصویر ہے سیرابی کی
اور دل میں ہے کوئی نقشِ دگر پانی کا
کون مشکیزی سرِ نیزہ عَلم ہوتا ہے
دیکھئے دشت میں لگتا ہے شجر پانی کا
آج تک گریہ کناں ہے اسی حسرت میں فرات
کاش ہوتا درِ شبّیر پپسر پانی کا
تیری کھیتی لبِ دریا ہے تو مایوس نہ ہو
اعتبار اتنا مری جان نہ کر پانی کا
***
Similar Threads:
Bookmarks