کنڈی چڑھا کے شام سے وہ شوخ سو رہا
پٹکا کیا میں سر کو پسِ در تمام رات
نہ تجھے دماغِ نگاہ ہے، نہ کسی کو تابِ جمال ہے
انہیں کس طرح سے دکھاؤں میں، وہ جو کہتے ہیں کہ خدا نہیں
مجھے زعفران سے زرد تر غمِ ہجرِ یار نے کر دیا
نہیں ایسا کوئی زمانہ میں، مرے حال پر جو ہنسا نہیں
حالِ شکستہ کا جو کبھی کچھ بیان کیا
نکلا نہ ایک اپنی زباں سے سخن درست
جو پہنے اُس کو جامۂ عریانی ٹھیک ہو
اندام پر ہر اک کے ہے یہ پیرہن درست
آرائشِ جمال کو مشاطہ چاہیئے
بے باغبان کے رہ نہیں سکتا چمن درست
نہ بوریا بھی میسّر ہوا بچھانے کو
ہمیشہ خواب ہی دیکھا کیے چھپر کھٹ کا
شراب پینے کا کیا ذکر، یار بے تیرے
پیا جو پانی بھی ہم نے تو حلق میں اٹکا
چمن کی سیر میں سنبل سے پہلوانی کی
چڑھا کے پیچ پہ اُن گیسوؤں نے دے پٹکا
There are currently 1 users browsing this thread. (0 members and 1 guests)
Bookmarks