شباب تک نہیں پہونچا ہے عالمِ طفلی
ہنوز حسنِ جوانیِ یار راہ میں ہے
طریقِ عشق کا سالک ہے واعظوں کی نہ سُن
ٹھگوں کے کہنے کا کیا اعتبار راہ میں ہے
جگہ ہے رحم کی یار ایک ٹھوکر اس کو بھی
شہیدِ ناز کا ترے مزار راہ میں ہے
تلاشِ یار میں کیا ڈھونڈیے کسی کا ساتھ
ہمارا سایہ ہمیں ناگوار راہ میں ہے
بہت سی ٹھوکریں کھلوائے گا یہ حسن اُن کا
بتوں کا عشق نہیں کوہسار راہ میں ہے
کنڈی چڑھا کے شام سے وہ شوخ سو رہا
پٹکا کیا میں سر کو پسِ در تمام رات
نہ تجھے دماغِ نگاہ ہے، نہ کسی کو تابِ جمال ہے
انہیں کس طرح سے دکھاؤں میں، وہ جو کہتے ہیں کہ خدا نہیں
مجھے زعفران سے زرد تر غمِ ہجرِ یار نے کر دیا
نہیں ایسا کوئی زمانہ میں، مرے حال پر جو ہنسا نہیں
حالِ شکستہ کا جو کبھی کچھ بیان کیا
نکلا نہ ایک اپنی زباں سے سخن درست
There are currently 1 users browsing this thread. (0 members and 1 guests)
Bookmarks