جسے ہوئی ہے محبت میں اب کے مات بہت
ہیں اس قبیلے سے میرے تعلقات بہت
کسی جنگل میں اب رہنا پڑے گا
مرا گاؤں مکمل ہو چکا ہے
مجھے یکسر عطا کر دے خدایا
مری قسمت میں جو کچھ بھی لکھا ہے
عجیب ہوں کہ محبت شناس ہو کر بھی
اداس لگتا نہیں ہوں اداس ہو کر بھی
وجود وہم بنا، مٹ گیا مگر پھر بھی
تمہارے پاس نہیں ہوں قیاس ہو کر بھی
اپنی تنہائی سے پوچھوں گا اگر پوچھ سکا
کیا یہ سچ ہے کہ ہر اک دوست سہولت تک ہے
شجر کی ٹہنیوں کے پاس آنے سے ذرا پہلے
دعا کی چھاؤں میں کچھ پل گزارا کر لیا جائے
ندیم اس شہر میں مانوس گلیاں بھی بہت سی ہیں
اور اب آئے ہیں تو ان کا نظارا کر لیا جائے
بات پیڑوں کی نہیں غم ہے پرندوں کا ندیم
گھونسلے جن کے کوئی توڑ دیا کرتا تھا
There are currently 1 users browsing this thread. (0 members and 1 guests)
Bookmarks