حضرت سائیں فرید اگر دیں ساتھ ہمارا
اب بھی ویراں تھل کو بسایا جا سکتا ہے
ریت پر پاؤں جم نہیں سکتے
ختم یہ سلسلہ کروں گا میں
اور تو کچھ نہ دے سکوں گا تجھے
تیرے حق میں دعا کروں گا میں
میں اس کو ڈھونڈنے نکلوں تو برسوں خرچ ہوتے ہیں
اگر مل جائے وہ مجھ کو دوبارہ چھوڑ دیتا ہے
سوچوں ہوں کٹ ہی جائے گی تنہا تمام عمر
لیکن تمام عمر، خدارا کوئی تو ہو
وقت نے دہرا دیا قصہ مرے اسلاف کا
اہل مکہ کو میں پھر گھر بار دے کر آ گیا
گلی کے موڑ پہ خالی مکان باقی ہے
ندیم کوئی تو اپنا نشان باقی ہے
ابھی تو پہلے سپاہی نے جان دی تجھ پر
تو غم نہ کر کہ مرا خاندان باقی ہے
مری ہتھیلی پہ تم خود کو ڈھونڈنا چھوڑو
مرے نصیب میں آئیں گے حادثات بہت
There are currently 2 users browsing this thread. (0 members and 2 guests)
Bookmarks