ذہن سے دور کی ہے یاد اس کی
پھر بھی وہ آس پاس سی کیوں ہے
راز ہنس تو رہے ہو محفل میں
پھر یہ چہرے پہ یاس سی کیوں ہے
خزاؤں سے بہاریں کیا الگ ہیں
ذرا بس رنگ پتوں کا ہرا ہے
جھکائے سر کھڑا ہے راز لیکن
اسے معلوم ہے وہ بے خطا ہے
گلا کے چھوڑے گا ہر شئے کو وقت کا تیزاب
سوائے نورِ خدا اور جاوداں کیا ہے
کس زاویے سے آئے میری زندگی میں تم
جتنے تھے میرے سائے وہ سب مجھ سے کٹ گئے
پتھر غموں کے اتنے تھے اس راہِ زیست میں
جھنجلا کے آدھی راہ سے ہم خود پلٹ گئے
ہر آرزو جو تم سے تھی وابستہ ، جل گئی
اس راکھ سے ہی یادوں کے سائے لپٹ گئے
اک عالمِ مستی ہے ، یہ عالمِ مئے نوشی
تھوڑی سی سمجھ باقی ، تھوڑی سی ہے بے ہوشی
There are currently 2 users browsing this thread. (0 members and 2 guests)
Bookmarks