رات اک اُجڑی ہوئی سوچ میرے پاس آئی
اور پھر اُجڑے ہوئے کتنے زمانے آئے
ایک اک کر کے حوادث بڑی ترتیب کے ساتھ
مرحلہ وار میرا ساتھ نِبھانے آئے
دن بھی نہ بیتا رات نہ بیتی
تیری ایک بھی بات نہ بیتی
ہو لیے ہم بھی اس طرف جاناں
جس طرف بھی تیرا خیال گیا
آج پھر تیری یاد مانگی تھی
آج پھر وقت ہم کو ٹال گیا
تو دسمبر کی بات کرتا ہے
اور ہمارا تو سارا سال گیا
کون تھا وہ کہاں سے آیا تھا
ہم کو کن چکروں میں ڈال گیا
اداسی میں گھرے رہتے تھے جب ہم
وہ سارے دن پرانے آ گئے ہیں
بتا دو موسم گریہ کو فرحت
کہ ہم رونے رلانے آ گئے ہیں
There are currently 2 users browsing this thread. (0 members and 2 guests)
Bookmarks