تشنگی میری بجھا سکتا نہیں
اے سمندر اتنا پانی کیا کروں
کوئی بھی رد عمل مفقود ہے
اتنی ساری رائیگانی کیا کروں
اپنی تقدیر بدل سکتا ہوں
میری مٹھی میں ستارا ہے ابھی
شان سے جاؤ تو ہے
یوں سرِ دار نہ جا
کچھ نہ کچھ لڑ تو سہی
اس طرح ہار نہ جا
کچھ دلاسہ بھی تو دے
ہم کو یوں مار نہ جا
یہ جو آنسوؤں میں غرور ہے
یہ محبتوں کا فتور ہے
چاند اک عمر سے سفر میں ہے
آسماں آسماں اداس اداس
سوچتا ہوں کہ میرے سینے میں
جانے کیا ہے نہاں اداس اداس
There are currently 1 users browsing this thread. (0 members and 1 guests)
Bookmarks