تشنگی ہے صدف کے ہونٹوں پر
گل کا سینہ فگار دیکھا ہے
ساقیا! اہتمامِ بادہ کر
وقت کو سوگوار دیکھا ہے
آئینے سے حضور ہی کی طرح
چشم کا واسطہ خیالی ہے
حسن پتھر کی ایک مورت ہے
عشق پھولوں کی ایک ڈالی ہے
وہ جن کے ہوتے ہیں خورشید آستینوں میں
انہیں کہیں سے بلاؤ ! بڑا اندھیرا ہے
مجھے تمہاری نگاہوں پہ اعتماد نہیں
مرے قریب نہ آؤ ! بڑا اندھیرا ہے
فرازِ عرش سے ٹوٹا ہوا کوئی تارا
کہیں سے ڈھونڈ کے لاؤ بڑا اندھیرا ہے
اے تغیر زمانہ یہ عجیب دل لگی ہے
نہ وقارِ دوستی ہے نہ مجالِ دشمنی ہے
یہی ظلمتیں چھنیں جو ترے سرخ آنچلوں میں
انہی ظلمتوں سے شاید مرے گھر میں روشنی ہے
There are currently 1 users browsing this thread. (0 members and 1 guests)
Bookmarks