جمنے لگی شکیبؔ جو پلکوں پہ گردِ شب
آنکھوں میں پھیلنے لگا خوابِ سحر کا رنگ
بڑا زمانہ ہوا آشیاں کو راکھ ہوئے
مگر نگاہ ہے اب تک دھواں دھواں لوگو
پھول مُرجھا گئے، گُلدان بھی گِر کر ٹوٹا
کیسی خوشبو میں بسے ہیں در و دیوار اب تک
دشت و صحرا اگر بسائے ہیں
ہم گلستاں میں کب سمائے ہیں
ہزار رنگ کی ظلمت میں لے گئی مجھ کو
بس اک چراغ کی خواہش بس اک شرار کی آس
وہ کالے کو کی دوری اب ایک خواب سی ہے
تم آ گئے ہو مگر کب نہ تھے ہمارے پاس
پاس رہ کر بھی بہت دور ہیں دوست
اپنے حالات سے مجبور ہیں دوست
کتنی گم سم مرے آنگن سے صبا گزری ہے
اک شرر بھی نہ اڑا روح کی خاکستر سے
کتنی رعنائیاں آباد ہیں میرے دل میں
اک خرابہ نظر آتا ہے مگر باہر سے
There are currently 1 users browsing this thread. (0 members and 1 guests)
Bookmarks