فلک پہ قوسِ قزح جس طرح پسِ باراں
افق پہ کیا مرے، تم یوں نہ جھلملاؤ گے
مَیں نہ خوشبُو نہ کرن، رنگِ سحر ہوں نہ صبا
کون آتا ہے بھلا ناز اُٹھانے میرے
جب سے کھویا ہے وُہ مہتاب سا پیکر ماجدؔ
سخت سُونے میں نگاہوں کے ٹھکانے میرے
جذبوں کی مشعلیں ہوں فروزاں سرِ زباں
محفل دل و نگاہ کی یوں بھی سجائیں ہم
کیونکر پئے حُصولِ ثمر مثلِ کودکاں
شاخِ سُرور کو نہ بعجلت ہلائیں ہم
ماجدؔ کبھی تو رشتۂ جاں ہو یہ اُستوار
قوسیں یہ بازوؤں کی کبھی تو ملائیں ہم
یہ حرفِ گرم، تہِ حلق رُک گیا کیسا
سُلگ اُٹھی ہیں یہ کیونکر لب و زباں کی تہیں
کسی اُفق کو تو ہم تُم بھی دیں جنم آخر
یہ آسمان و زمیں بھی کسی جگہ تو ملیں
کبھی تو دیجئے آ کر اِنہیں بھی اِذنِ کشود
پڑی ہیں خوں میں جو گرہیں کسی طرح تو کھُلیں
یہ شُعلہ ہائے بدن اپنے سامنے پا کر
چراغ کیوں نہ لہو کے بچشمِ شوق جلیں
There are currently 1 users browsing this thread. (0 members and 1 guests)
Bookmarks