پھول دامن میں چند رکھ لیجئے
راستے میں فقیر ہوتے ہیں
دل میں مکیں تھا کوئی تو جلتے رہے چراغ
جاتے ہوئے وہ شوخ انہیں بھی بجھا گیا
برباد دل میں جوشِ تمنا کا دم نہ پوچھ
صحرا میں جیسے کوئی بگولے اڑا گیا
ہاں ہم ہیں وہاں ربط و کشش سے کام چلتا ہے
سمجھنے اور سمجھانے کی گنجائش بہت کم ہے
مطلب معاملات کا ، کچھ پا گیا ہوں میں
ہنس کر فریبِ چشمِ کرم کھا گیا ہوں میں
اب شدتِ غم میں مصنوعی آرام سہارا دیتا ہے
یا دوست تسلی دیتے ہیں یا جام سہارا دیتا ہے
وہ ہمکلامی ء بے اختیار و سادہ روش
وہ ہم نشینی ، دیوانہ وار یاد کرو
واقف تھے تیری چشمِ تغافل پسند سے
وہ رنگ جو بہار کے سانچے میں ڈھل گئے
جب بھی وہ مسکرا کے ملے ہم سے اے عدم
دونوں جہان فرطِ رقابت سے جل گئے
There are currently 1 users browsing this thread. (0 members and 1 guests)
Bookmarks