اے شمع! اُن پتنگوں کی تجھ کو کہاں خبر
جو اپنے اشتیاق کی گرمی سے جل گئے
موسمِ گل ہے ، اپنی بانہوں کو
میری بانہوں میں ڈال کر چلئے
یا سماعت کا بھرم ہے یا کسی نغمے کی گونج
ایک پہچانی ہوئی آواز آتی ہے مجھے
نقل موزوں ہو تو وہ اصل میں ڈھل جاتی ہے
نہیں برسات تو برسات کی باتیں چھیڑو
آگہی میں اک خلا موجود ہے
اس کا مطلب ہے خدا موجود ہے
جس سے چھپنا چاہتا ہوں میں عدم
وہ ستمگر جا بجا موجود ہے
دوستوں کے نام یاد آنے لگے
تلخ و شیریں جام یاد آنے لگے
بھولنا چاہا تھا ا ن کو اے عدم
پھر وہ صبح و شام یاد آنے لگے
گزر تو خیر گئی ہے عدم حیات مگر
ستم ظریف بڑی بے رُخی سے گزری ہے
There are currently 1 users browsing this thread. (0 members and 1 guests)
Bookmarks