میں نے سمجھا تھا میں محبت ہوں
میں نے سمجھا تھا مدعا ہوں میں
کاش مجھ کو کوئی بتائے عدم
کس پری وش کی بددعا ہوں میں
نکلا تھا میکدے سے کہ اب گھر چلوں عدمؔ
گھبرا کے سوئے میکدہ پھر آگیا ہوں
جس نے مہ پاروں کے دل پگھلا دیے
وہ تو میری شاعری تھی ، میں نہ تھا
آج دل ڈوبنے سے ڈرتا ہے
دیکھ دریا میں کتنا پانی ہے
جو بھی کرنا ہے کر گزر اے دل
سوچنا مرگِ شادمانی ہے
زندگی وہ ! جو ان کے ساتھ گئی
یہ تو میری حیاتِ ثانی ہے
خرد بھی زندگی کی کہکشاں کا اک ستارہ ہے
مگر یہ وہ ستارہ ہے جو نا مسعود ہوتا ہے
بن گیا فتنۂ محشر کا اثاثہ آخر
غلغلہ میری جوانی کے بہک جانے کا
There are currently 2 users browsing this thread. (0 members and 2 guests)
Bookmarks