اگرچہ عام سے الفاظ ہیں لیکن
تری طرزِ ادا کچھ اور کہتی ہے
سنو، شاید اترنے کو ہے طوفاں
سمندر کا کنارا بولتا ہے
بات کرتا ہے یوں کہ بات نہ ہو
یہ بھی اس کی ادا رہی ہو گی
غیروں کی خلعت سے بڑھ کر سجتی ہیں
اپنے تن پر ہوں گر لیریں بھی اپنی
جس کا ماس اڑایا چیلوں کوّوں نے
مردہ ہاتھ نبات اٹھائے پھرتا ہے
کتنے تاروں پہ قیامت ٹوٹی
اپنا دامن جو نچوڑا میں نے
کاروبارِ حیات کا حاصل
ایک دولت ہی تو نہیں تنہا
شہر کے لوگ سمجھتے ہیں تجھی کو جھوٹا
اتنا سچ بول گیا ہے ارے پگلے! پاگل!
کبھی آہ بن کے ہوا ہوئی، کبھی نالہ بن کے ادا ہوئی
کسے کیا خبر کہ وہ کیا ہوئی، وہ جو بے کلی تھی دبی رہی
There are currently 1 users browsing this thread. (0 members and 1 guests)
Bookmarks