یہ کسی راز داں کا تحفہ ہے
غیر کب ایسے وار کرتے ہیں
کھینچے پھرتا ہے نیم جاں تن کو
دل بھی کسی جفائیں کرتا ہے
رات بھر لوگ جاگتے بھی ہیں
شہر بھی سائیں سائیں کرتا ہے
ابھی تو شاخوں میں زندگی ہے، ابھی تو پھولوں میں تازگی ہے
مگر خزاں اور بادِ صرصر نے ایک ڈر سا لگا دیا ہے
مجھے سخن ور نہ کوئی کہنا کہ میں تو تاریخ لکھ رہا ہوں
نہ یہ غزل ہے نہ شاعری ہے یہ آج کے دن کا ماجرا ہے
میں اپنی دھن میں گائے جا رہا تھا نغمہ ہائے جاں
مجھے نہیں کوئی خبر کہ لوگ کب چلے گئے
زباں کوئی نہ مل سکی ظہورِ اضطراب کو
تمام لفظ چھوڑ کر لرزتے لب، چلے گئے
گہر جب آنکھ سے ٹپکا زمیں میں جذب ہوا
وہ ایک لمحہ بڑا با وقار گزرا تھا
ہماری یاد بھی آئی تو ہو گی
پھر آنکھوں میں نمی چھائی تو ہو گی
There are currently 1 users browsing this thread. (0 members and 1 guests)
Bookmarks