چلو یارو بیابانوں میں کنجِ عافیت ڈھونڈیں
درندے دندناتے پھر رہے ہیں میرے شہروں میں
لب و عارض، وصال و ہجر کی شیرینیاں عنقا
زمانے بھر کی تلخی بھر گئی ہے میرے لفظوں میں
تم سے رونق ہے دل کی دنیا میں
تم مجھے بھول جاؤ گے کیسے
ہم کو آتا ہے پیار کر لینا
آزمائش بھی یار کر لینا
کس قدر سادگی سے وہ بولے
ہاں، ذرا انتظار کر لینا
کچوکے دوستوں نے تو لگائے
پہ ہم ناداں سمجھ کچھ بھی نہ پائے
بھری محفل میں تنہا لگ رہا ہوں
کہ ہر سو اجنبیت کے ہیں سائے
ڈرا رہا ہے مجھے وہ میرے پڑوسیوں سے
مرے جگر میں جو زہر خنجر اتارتا ہے
نوید ہے اک جہانِ نو کی، اسی کے دم سے
’ہماری روحوں میں ارتقا پر سنوارتا ہے‘
There are currently 1 users browsing this thread. (0 members and 1 guests)
Bookmarks