اُٹھتی نہیں ہیں شوق و تجسّس کے باوجود
آنکھوں کے کتنے کام پرانے نہیں رہے
عشق سے بیاہ ہو گیا اور پھر
دل کی دلہن کو غم کا داج ملا
تیری یادیں ہی چھانتے ہیں ہم
دیکھو کیسا یہ کام کاج ملا
جاتے جاتے اس طرح سب کچھ سوالی کر گیا
روح کا کمرہ بھرا رہتا تھا خالی کر گیا
پربت پربت اڑے پھرے ہے من پنچھی بے چین
جانے کہاں کہاں لے جائیں سانوریا کے نین
کون تھا جس کی آہوں کے غم میں ہوا سرد تھی شہر کی کس کی ویران آنکھوں کا لے کے اثر، چاند خاموش تھا
پھٹ نہ جائے دل کہیں اصرار سے
اس لیے گزرے نہیں بازار سے
اتنا کڑوا عشق سبھی
لوگوں نے کب چکھا ہے
بس اِک چراغ یہ روشن دِل تباہ میں ہے
کہ اُس کی میری جدائی ابھی نِباہ میں ہے
There are currently 2 users browsing this thread. (0 members and 2 guests)
Bookmarks