اک ستارہ ادا نے یہ کیا کر دیا، میری مٹی سے مجھ کو جدا کر دیا
ان دنوں پاؤں میرے زمین پر نہیں، اب مری منزلیں آسمانوں میںہیں
میرے لفظوں میں بھی چھپتا نہیں پیکر اس کا
دل مگر نام بتانا بھی نہیں چاہتا ہے
بدن کے دونوں کناروں سے جل رہا ہوں میں
کہ چھو رہا ہوں تجھے اور پگھل رہا ہوں میں
جب یہ عالم ہو تو لکھیئے لب و رخسار پہ خاک
اڑتی ہے خانۂ دل کے در و دیوار پہ خاک
جو کسی اور نے لکھا ہے اسے کیا معلوم
لوحِ تقدیر بجا، چہرہ اخبار پہ خاک
یہ بھی دیکھو کہ کہاں کون بلاتا ہے تمھیں
محضرِ شوق پڑھو، محضرِ سرکار پہ خاک
یا نصرت آج کمانوں کی
یا دائم رنگ گلابوں کا
اک اسم کی طاہر چادر میں
طے موسم دھوپ عذابوں کا
ا یسا تو نہیں کہ اُن سے ملاقات نہیں ہوئی
جو بات میرے دل میں تھی وہ بات نہیں ہوئی
There are currently 1 users browsing this thread. (0 members and 1 guests)
Bookmarks