تو ادھر کس کو ڈبونے کے لئے آئی تھی
دیکھ اے موجِ بلا خیز کنارہ ہے کہ ہم
سمجھ لرزتی لوؤں کو دعائے موسمِ وصل
چراغ موج پہ رکھ دے، ندی میں پھول کھلا
جب بھی کی ہم رہیِ بادِ بہاری ہم نے
خاک پر آگے نظر اپنی اتاری ہم نے
کہیں کسی کے بدن سے بدن نہ چھو جائے
اس احتیاط میں خواہش کا ڈھنگ سا کچھ ہے
چلو زمیں نہ سہی، آسمان ہی ہوگا
محبتوں میں بہر ھال تنگ سا کچھ ہے
خوشبو کی طرح ساتھ لگا لے گئی ہم کو
کوچے سے ترے بادِ صبا لے گئی ہم کو
ہم کون شناور تھے کہ یوں پار اترتے
سوکھے ہوئے ہونٹوں کی دعا لے گئی ہم کو
یہاں نہیں ہے یہ دستورِ گفتگو عرفانؔ
فغاں سنے نہ کوئی، حرفِ زیر لب کیا ہے
ایک رنگ آخری منظر کی دھنک میں کم ہے
موجِ خوں اٹھ کے ذرا عرصۂ شمشیر میں آ
There are currently 2 users browsing this thread. (0 members and 2 guests)
Bookmarks