رہ جائے بُجھ کے قلب و نظر میں ہے جو بھی پیاس
گاؤ ملہار گاؤ ،گھٹا بھی ہے مے بھی ہے
وہی جو تیر سی میرے بدن کو چیر گئی
وہ بات منہ پہ نہ لاتے اگر بُرا کیا تھا
تمہارے ہجرِ مسلسل سے جو الاؤ بنی
اس آگ میں نہ جلاتے اگر بُرا کیا تھا
رکھ نہ ہم سے چھپا کر طراوت لب و چشم و رخسار کی
لے کے جائیں کہاں ہم یہ سُوکھی زباں دیکھ ایسا نہ کر
جب کبھی میری جانب ترا رُخ پھرا پھُول کھلنے لگے
دل کا ہر خواب سورج مکھی بن گیا پھُول کھلنے لگے
ہاں ہاں مجھے جلائے جو تیرے فراق میں
ہر رگ میں جاگزیں ہے اُسی اِک اگن کی باس
چاہتوں کا جو سندیس لیکر گیا آپ تک آپ نے
بام سے وہ کبوتر اڑایا نہیں ہم نہیں بولتے
آپ سے ملنے کا ایسا تھا نشہ
رنگ تھا جیسے کوئی ،اُترا نہیں
تم نے ان سب کو بھی اپنا دامن جھٹک کر پرے کر دیا
جن کو تم تک پہنچتے زمانے لگے تم نے اچّھا کیا
There are currently 1 users browsing this thread. (0 members and 1 guests)
Bookmarks