آنکھ میں شب کی اوٹ میں کھلتی کلیوں کی سی حیا
اُس کے رُخ پر لپٹا چاند کا آنچل لگتا ہے
نشۂ جُہل نے اپنے یہاں یُوں سب کو سیر کیا
اپنے عقیدے میں ہر شخص ہی پاگل لگتا ہے
لب پہ رکا ہے آ کر جانے کون سا حرفِ گراں
ماجِد ہاتھ میں اپنا قلم تک بوجھل لگتا ہے
خَیر کے چرچے فراواں اور زیادہ شر یہاں
آشتی باہر نمایاں اور بگاڑ اندر یہاں
سر گرانی جن سے ہو وہ آنکھ سے ہٹتے نہیں
جی کو جو اچّھے لگیں ٹھہریں نہ وہ منظر یہاں
کاش ایسا ہو کہ پاس اُس کے خبر ہو خَیر کی
جب بھی آئے کاٹتا ہے ہونٹ، نامہ بر یہاں
اور ہی انداز سے دمکے گی اب اردو یہاں
اس سے وابستہ رہے گر خاورؔ و یاورؔ یہاں
محض گرد و دُود ہی کیا اور بھی اسباب ہیں
سانس تک لینا بھی ماجدؔ ہو چلا دُوبھر یہاں
دینے لگا ہے یہ بھی تاثر کمان کا
کیا کیا سلوک ہم سے نہیں آسمان کا
There are currently 1 users browsing this thread. (0 members and 1 guests)
Bookmarks