54عشق، تاثیر سے نومید نہیں
جاں سپاری، شجرِ بید نہیںرازِ معشوق نہ رسوا ہو جائےورنہ مر جانے میں کچھ بھید نہیںہے تجلی تری، سامانِ وجودذرّہ، بے پرتوِ خورشید نہیںگردشِ رنگِ طرب سے ڈرئیےغمِ محرومئ جاوید نہیں !سلطنت دست بَدَست آئے ہےجامِ مے ، خاتمِ جمشید نہیںکہتے ہیں "جیتی ہے امید پہ خلق"ہم کو جینے کی بھی امید نہیںمے کشی کو نہ سمجھ بے حاصلبادہ، غالبؔ! عرقِ بید نہیں
Similar Threads:
There are currently 1 users browsing this thread. (0 members and 1 guests)
Bookmarks