مُند گئیں ، کھولتے ہی کھولتے ، آنکھیں ، یک بار
خُوب وقت آئے تم، اِس عاشقِ بیمار کے پاس
مَیں بھی رُک رُک کے نہ مرتا، جو زباں کے بدلے
دشنہ اِک تیز سا ہوتا، مِرے غمخوار کے پاس
دیکھ کر تجھ کو، چمن بسکہ نُمو کرتا ہے
خُود بخود، پہنچے ہے گُل، گوشۂ دستار کے پاس
دَہَنِ شیر میں جا بیٹھیے ، لیکن، اے دل!
نہ کھڑے ہو جیئے ، خُوبانِ دل آزار کے پاس
مر گیا پھوڑ کے سر، غالبؔ وحشی، ہَے ہَے !
بیٹھنا اُس کا وہ، آ کر، تری دیوار کے پاس
Similar Threads:
There are currently 1 users browsing this thread. (0 members and 1 guests)
Bookmarks