جاتا ہوں جدھر، سب کی اُٹھے ہے اُدھر انگشت

یک دست جہاں مجھ سے پھرا ہے ، مگر انگشت
کافی ہے نشانی، ترا چھلّے کا نہ دینا
خالی مجھے دکھلا کے ، بوقت سفر، انگشت
خوں دل میں جو میر ے نہیں باقی، تو پھر اس کی
جوں ماہی بے آب، تڑپتی ہے ہر انگشت
افسوس! کہ دنداں کا کیا رزق فلک نے
جن لوگوں کی تھی، درخورِ عقدِ گہر، انگشت
لکھتا ہوں ، اسد! سوزشِ دل سے سخنِ گرم
تا رکھ نہ سکے کوئی، مرے حرف پر، انگشت

32



قیس بھاگا، شہر سے شرمندہ ہو کر، سوئے دشت
بن گیا، تقلید سے میری، یہ سودائی عبث

33



Similar Threads: