آغوشِ ستم میں ہی چھپا لے کوئی آ کر


تنہا تو تڑپنے سے بچا لے کوئی آ کر

صحرا میں اُگا ہوں کہ مری چھاؤں کوئی پائے
ہلتا ہوں کہ پتوں کی ہوا لے کوئی آ کر

بِکتا تو نہیں ہوں، نہ مرے دام بہت ہیں
رستے میں پڑا ہوں کہ اٹھا لے کوئی آ کر

کشتی ہوں مجھے کوئی کنارے سے تو کھولے
طوفاں کے ہی کر جائے حوا لے کوئی آ کر

میرے کسی احسان کا بدلہ نہ چکائے
اپنی ہی وفاؤں کا صلہ لے کوئی آ کر

اتنا تو ہو، پتھرائے ہوئے اشک پگھل جائیں
اپنا ہی مجھے درد سنا لے کوئی آ کر

گر جائیں نہ جاگی ہوئی راتیں مرے سرسے
تھوڑا سا تو یہ بوجھ اٹھا لے کوئی آ کر

سر کو نہ عدیم آ کے کوئی شخص سنبھالے
دیوار ہی کو گرنے سے بچا لے کوئی آ کر




Similar Threads: