تم تو ہم سے ملنے آئے تھے
(جاوید انور کی یاد میں)
تم تو ہم سے ملنے آئے تھے، جاوید انور
اور وہ نظم سنانے
جو تم نے کبھی لکھنی تھی
ارض و فضا سے دور کسی گم گشت خلا میں
ایک ستارے کی صورت
اک وقفے کی پہنائی میں
ہونے اور نہ ہونے کے بیچ کہیں
بے سار زمانوں کی تنہائی میں
نظم جو تم نے لکھنی تھی
کشتی اور ملاح کے دل میں
آب رواں کی جھلمل میں
دور بہت دور کہیں
اس پار کنارے کی صورت
سطروں، لفظوں کے بغیر
رمز اشارے کی صورت
جانے کس مرگ آسا کو بتا کر بھی چھپانا تھی
نہ سنا کر بھی سنانا تھی
بن لکھی اور سنائی
نظم سنا کر کتنے خوش تھے
تم، جیسے ہم سب بچے ہوں
اور تمہاری نظم کا راز نہ سمجھے ہوں
کاش ہماری آنکھوں میں
کاغذ کی کشتی جیسی بھیگی اک نظم بھی تم پڑھ لیتے
ہم کو بھی معلوم تھا یارا
بن لکھی اور سنائی نظم کہاں سے آتی ہے
اور کہاں گم ہو جاتی ہے
ہم بھی اک دیہاتی رات کی عریاں ویرانی میں
چاند اور تاروں کا اصلی چہرہ دیکھ چکے ہیں
ہم بھی اس تلخ نگوڑے میلے گدلے جیون کا
اجلا بچپن دیکھ چکے ہیں
کاش ملے بن تم ملتے
ہم سے،
اور دلوں کے جنگل میں ان دیکھے پھول کی صورت
دائم کھلتے
تم نا ملتے، تم سے ملنے کی بس آشا ہوتی
پھوٹ پھوٹ کے یوں نظم نہ روتی
٭٭٭
Similar Threads:
NIce one
There are currently 1 users browsing this thread. (0 members and 1 guests)
Bookmarks