گدھے پر سواری کا اپنا مزہ ہے



گدھے پر سواری کا اپنا مزہ ہے

نہ گر شہسواری کے، میدان ماری کے
آنے ضروری
نہ کاٹھی، لگامیں نہ کسنے کی حاجت
نہ چرمی کھڑاؤں، نہ چوپاؤں کے نیچے لوہے کے حلقے
نہ اسپیڈ اتنی کہ گرنے کا خطرہ
نہ قربت فلک کی
نہ مٹی سے دوری
سر راہ، کھیتوں میں، گلیوں میں
ہر سمت جانے کی آزادگی، گھاس خوری
نہ منزل کی جلدی، نہ رکنے کی عجلت
نہ شرقی نہ غربی
نہ اسپ فرنگی نہ عربی
مگر چال دلکی
عجب شان درویشی، پیغمبرانہ صبوری
مسیحی، زبوری
نہ شہزادگی کی تمنا نہ شہزادیوں کی محبت، رقابت
نہ ملکہ کی وصلت نہ ڈر بادشہ کا
کنیزوں غلاموں کی سازش
نہ جلاد شاہی کی تلوار سر پر
نہ گردن زنی، نیزہ بازی نہ پولو
نہ دربار و سرکار کی جی حضوری ۔۔۔۔۔۔۔
فلاطونی دانش نری خر دماغی ہے
انسانی فطرت ہمیشہ سے باغی ہے
خرکار صدیوں کی حکمت قدیمی
نمک اور کاٹن کا بزنس پرانا
بڑوں، بوڑھوں، بچوں کو ازبر کہانی
مگر ندی نالوں میں آب رواں کی کمی ہے
نئی مارکیٹوں میں پانی کا دھندا نیا ہے
بنفشے کا سیرپ نہ شربت بزوری ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
علی بابا چالیس چوروں کے قصے میں
دینار و درہم کے انبار
ہیرے جواہر کے مٹکے
بجز ایک خروار کچھ بھی نہیں ہے
زر و مال کی خیرگی، دیدہ کوری
وہ یک چشم دجال آئے نہ آئے
ہے قرب قیامت کی ہر شرط پوری
صدا ڈھینچوں ڈھینچوں کی مسحور کن ہے
ازل سے ابد تک نمایاں یہی ایک دھن ہے
بظاہر سبک رو زمانے کی رفتار نوری
نہ دم آدمی کی نہ خرطوم،
بندر نہ بوزہ
نہیں کچھ مکمل یہاں پر
ہر اک شے ہے آدھی ادھوری
سراسر عبوری
فقط اک تمسخر کی طفلانہ خواہش
خود اپنے تماشے کی لذت بھری بے نیازی،
شرارت بھری ناصبوری
گدھے پر سواری کا اپنا مزہ ہے
مرے یار احمق فتوری!!
٭٭٭



Similar Threads: