مرگ آساں




مجھے تم بلاؤ
تو میں تم سے ملنے بھی آؤں
تھکن کا لبادہ اتاروں
تمہیں جی بھر کے دیکھوں
بڑے خوبصورت سے لفظوں میں، رنگوں میں ڈھالوں، سنواروں
مناظر میں آنکھیں گھماؤں، ہوا کو پکاروں، افق در افق بادلوں کو صدا دوں
کہ تم کو نیا کوئی ملبوس پہنائیں
روز ازل سے ملی سرد سنگین عریانیوں کو چھپائیں

یہی زندگی ہے
جسے ہم زمانے کی اتھلی تہوں میں
بہت گہرا کر کے سدا بھوگتے ہیں
سدا روگتے ہیں
اگر ہم اسے بھی کسی یار دلدار کے آگے ہاریں
بہت سادگی سے زمیں پر گزاریں
کسی آسماں کو نہ سر میں جگہ دیں، نہ اتنا ابھاریں
تو کتنی بھلی، خوب رو سی لگے
زندگی سے بھری زندگی
سرسری زندگی

ایک دیکھے نہ دیکھے ہوئے خواب کہنہ سے باہر
قدیمی حقیقت کے پتھ پر
کبھی تم بلاؤ تو میں لان کے سارے پھولوں کو اس کی خبر دوں
گھنی سبز بیلوں کے اندر چھپے
خشک پتوں کو یکبارگی گدگدا کر ہلاؤں، گراؤں
جنہیں خود لگایا تھا، جن پر ابھی بور آیا تھا
ان سارے پودوں کو اک غم زدہ سی مسرت سے دیکھوں
ہری گھاس کو چوم لوں، اوس میں آنسوؤں کو ملاؤں
نباتاتی معصوم کیڑوں مکوڑوں کو چھیڑوں
ذرا دیر کھیلوں

پرندوں کو دانہ کھلاتے بتاؤں
کہ میں جا رہا ہوں
اسے دیکھنے، چپ چپاتے، بتائے بنا دوستوں کو
جسے دیکھنے کی تمنا میں
اس زندگی کو گزارا
کبھی بے وفا نے بلایا نہ پوچھا
مگر اب، سنو، عین جینے کی رت میں
کسی جان لیوا، اجل خیز ساعت کی آواز آنے لگی ہے
مجھے روکنا مت
مری اصلی محبوبہ مجھ کو بلانے لگی ہے
جسے سوچتے سوچتے عمر پایاں لگا دی
وہ دیکھو، مجھے خود گلے سے لگانے لگی ہے
٭٭٭


Similar Threads: