مجذوب خواہش کا خمیازہ
تباشیریدنوں میں وہ
خوداپنے روپ کا بہروپ لگتا ہے
پڑارہتا ہے چپ اوڑھے
اسےجو بھوک لگتی ہے
تویادوں کے سڑے سوک ہے نوالے توڑتا
اورپھانک لیتا ہے
تباسیخواہشوں کو چاٹتا ہے
سانسلیتا ہے
تویوں لگتا ہے جیسے اس کے سینے میں
سمندربھاپ بن کر اڑ رہا ہو
دھوپلگتی ہے
تو تنکی لوستی تپتی زمیں پر
شب کیچادر تان لیتا ہے
وہگہری نیند میں بھی جاگنے کا ورد کرتا،
خوابجپتا ہے
انوکھے، بد مزہ سے خواب
پلکوںکے گھنے جنگل میں
ٹپ ٹپبارشوں کا راگ سنتا ہے
اچانکدھوپ میں لت پت کوئی منظر گزرتا ہے
توآنکھیں میچ لیتا ہے ۔۔
سبھیکہتے ہیں
ایساتو نہیں تھا وہ
مگراس نے
کسیمجذوب عورت کی طرف
شہوتبھری نظروں سے دیکھا تھا
٭٭٭
Similar Threads:
Bookmarks