نغمۂ بیابانی





ہواروز قصبے کی کہنہ حویلی کا در کھولتی ہے
زمانےکی بوسیدگی سے
کوئیروح آزاد ہو کر
مجھےاوڑھ لیتی ہے
اپنےعلاقے سے نکلا ہوا اجنبی میں
مراجسم بارانی رستوں، زمینوں میں خود رو
جڑیبوٹیوں کی طرح پھیلتا پھولتا
نیمشاداب کھیتوں کی بے آبیوں سے گزر کر
کسیتیز برساتی نالے میں گرتا ہے
سیرابیوںکی کہانی کئی موڑ مڑتی ہے
دریاکی طغیانیوں میں
کئیرس کی باتیں ہیں، گھاتیں ہیں
جنگلہیں، بیلے ہیں، صدیوں پرانے کٹاؤ ہیں
گھاؤہیں، گہرے بہاؤ ہیں
اپنےبہاؤ میں خود ڈوبنے کی تمنا عجب ہے
ہواجانتی ہے
ہواجانتی ہے
مرےسنگ یادوں کا میلہ ہے، عمروں کی وارفتگیہے
جواںسال لمحوں کی رونق ہے، بوڑھے زمانوں کیافسردگی ہے
ارادوںسے لبریز دن کی مشقت ہے
خوابوںسے معمور شب کی سیاہی ہے
نیچرکی بے پایاں دولت ہے
سورجکا سونا ہے، تاروں کی چاندی ہے
بےانت پھیلا ہوا آسماں ہے
افقکے کنارے پہ روٹی نما چاند ہے
لالٹینوںکی کم روشنی ہے
الاؤہیں
خانہبدوشوں کے ڈیرے ہیں
ناقہسواروں کی پرچھائیاں ہیں
ہواجانتی ہے
ہواجانتی ہے
مرےدل سے لپٹی ہوئی ایک وعدے کی رسی ہے
آنکھوںمیں ٹوٹا ہوا ایک عہد محبت ہے
خوابوںکی مٹی ہے
بےموسمی بارشوں کی نمی ہے
مجھےکیا کمی ہے
ہواجانتی ہے
پرانامیوزک سناتی، اداسی کو ڈی کوڈ کرتی
ہواوائلن کی طرح
مجھسے میرے قدیمی دکھوں کی زباں بولتی ہے
ہواروز قصبے کی کہنہ حویلی کا در کھولتی ہے
٭٭٭



Similar Threads: