دکھیلفظوں کی اک نظم

کھلےدریچوں کے پاس بیلوں پہ شام اتری تو اس نےسوچا
کبھیدسمبر کی دھوپ جیسا وہ مہرباں جو کہیںنہیں ہے
ہواکے ہونٹوں پہ گیت لکھتا تو بالکونی میںپھول کھلتے
جولوگ آنکھوں کے خواب لے کر سمندروں میں اترگئے تھے
وہجانتے تھے کہ ریگ ساحل محبتوں کی امیںنہیں ہے
جولوگ رستوں میں پھر نہ ملنے کا عہد کر کےبچھڑ گئے تھے
کسےخبر ہے کہ وہ ہواؤں کے گیت بن کر، تھکےپرندوں،
بکھرتےپتوں کے میت بن کر اداس راہوں میں گونجتےہیں
انہیخیالوں میں گم وہ کمرے سے آئی باہر تو اسنے دیکھا
ہواکے جھونکے برآمدے میں ستوں بن کر کھڑے تھےلیکن
دکھوںکی بیلا نے ان کے اوپر عجیب لفظوں میں لکھدئے تھے
گئیرتوں کے سوالنامے جنہیں وہ پڑھ کے بہت ہیروئی۔
٭٭٭




Similar Threads: