ماہ و سال
اسی روش پہ ہے قائم مزاجِ دیدہ و دل
لہو میں اب بھی تڑپتی ہیں بجلیاں کہ نہیں
زمیں پہ اب بھی اترتا ہے آسماں کہ نہیں؟
کسی کی جیب و گریباں کی آزمائش میں
کبھی خود اپنی قبا کا خیال آتا ہے
ذرا سا وسوسۂ ماہ و سال آتا ہے ؟
کبھی یہ بات بھی سوچی کہ منتظر آنکھیں
غبار راہ گزر میں اجڑ گی ہوں گی
نظر سے ٹوٹ چکے ہوں گے خواب کے رشتے
وہ ماہتاب سی نیندیں بچھڑ گئ ہو ں گی
نیازِ خواجگی و شانِ سروری کیا ہے
شعارِ مشفقی و طرزِ دلبری کیا ہے
یہ بے رخی یہ اداۓ ستم بھی پو چھیں گے
ہماری عمر کے ہم لو تو ہم بھی پو چھیں گے
٭٭٭
Similar Threads:
There are currently 1 users browsing this thread. (0 members and 1 guests)
Bookmarks