ہوئی اک عُمر ترکِ التجا کو

مگرہاتھ اب بھی اُٹھتے ہیں دعا کو

انہیں ضد ہے مری عرضِ وفا سے
نہ جانے کیا سمجھتے ہیں وفا کو

غرض کی زندگی مطلب کی دنیا
کہاں رکھوں دلِ بے مُدعا کو

محبت کا یہ تلخ انجام توبہ
کوئی آواز دے دے ابتدا کو

جو ہیں کھوئے ہوئے سازِ طرب میں
وہ کیا سمجھیں مرے دل کی صدا کو

شکیل اپنی وفا کرتی ہے ہر بار
سلامِ آخریاس بے وفا کو



Similar Threads: