آج کیا ہے جو ملا شوخ نگاہوں کو قرار
کیا ہوا حُسن کی معصوم حیاوں کا وقار
آج کیوں تم مجھے دیکھے ہی چلے جاتے ہو
دفعتاً ٹوٹ گیا کس لیئے بجتا ہوا ساز
کیا ہوئے نغمے وہ اب کیوں نہیں آتی آواز
آج ہونٹوں پہ خموشی ہی خموشی کیوں ہے
خوب تدبیر نکالی ہے منانے کی مجھے
آتشِ سوزِ محبت میں جلانے کی مجھے
بھولے بھالے ہو تہ دیدو مرے شکوؤں کا جواب
تم نے کیا بیشتر اپنا نہ بنایا مجھ کو
پھر یکایک نہ نگاہوں سے گرایا مجھ کو
یہ اگر جھُوٹہے تو منہ سے کہو چُپ کیوں ہو
تنے نے کیا دل کو مرے درسِ محبت نہ دیا
اور پھر جان کے داغِ غم فرقت نہ دیا
یہ اگر جھُوٹ ہے تو منہ سے کہو ، چُپ کیوں ہو
تم نے کیا مجھ سے کسی قسم کا وعدہ نہ کیا
ایسا وعدہ جو کبھی بھُول کے ایفاء نہ کیا
دے سکے نہ مرے ایک بھی شکوے کا جواب
اب میں سمجھا کہ ہے کیا راز بداماں حجاب
واقعی تم کو ندامت ہے جو خاموش ہو تم
یا کسی پردۂ تصویر میں روپوش ہو تم
٭٭٭



Similar Threads: