سسکیاں لینے سے کیا فائدہ اے زینتِ شب
دیکھ اس ہنستی ہوئی رات کو افسردہ نہ کر
تیرا رونا تجھے تسکین تو دے سکتا ہے
لیکن اس انجمنِ عیش کو آزردہ نہ کر
مجھ پہ روشن ہے ترے سوئے ہوئے درد کی آگ
جبر کی بادہ گساری سے بھڑک اٹھی ہے
تیری کچلی ہوئی غیرت تری روندی ہوئی روح
اک حقارت بھری ٹھوکر سے پھڑک اٹھی ہے
اور یہ توہین ترے جسم کی توہین نہ تھی
ورنہ یہ زہر تو ہنس ہنس کے پیا ہے تُو نے
وقفِ گردش رہی ساغر کی طرح دست بدست
بزم کی بزم کو سرشار کیا ہے تُو نے
تُو نے ہر جلتی ہوئی روح کو گلزار کیا
تُو ہر اک ہاتھ میں غنچے کی طرح چٹکی ہے
تُو نے ہر دوش پہ بکھرائی ہیں اپنی زلفیں
تُو ہر آغوش میں خوشبو کی طرح بھٹکی ہے
مگر امشب ترے احساس پہ وہ چوٹ پڑی
تلخ فاقوں کی اذیت بھی بھلا دی جس نے
تیرے کردار کے صحرا سے وہ آندھی اٹھی
فکر فردا کی بھی دیوار گرا دی جس نے
تجھ کو معلوم نہیں ہے مگر اے دشمنِ جاں
اس تجارت سے عبارت تری شخصیت ہے
جسم سے لے کے تری روح تلک آج کی رات
یا مری یا مرے احباب کی ملکیت ہے
٭٭٭
Similar Threads:
Bookmarks