دل سے شوقِ رخِ نکو نہ گیا
جھانکنا تاکنا کبھو نہ گیا
ہر قدم پرتھی اس کی منزل لیک
سر سے سودائے جستجو نہ گیا
سب گئے ہوش و صبر و تاب و تواں
لیکن اے داغ دل سے تو نہ گیا
دل میں کتنے مسوّدے تھے ولے
ایک پیش اُس کے روبرو نہ گیا
سبحہ گردن ہی میرؔ ہم تو رہے
دستِ کوتاہ تا سبُو نہ گیا
گل و بلبل بہار میں دیکھا
ایک تجھ کو ہزار میں دیکھا
جل گیا دل سفید ہیں آنکھیں
یہ تو کچھ انتظار میں دیکھا
آبلے کا بھی ہونا دامن گیر
تیرے کوچے کے خار میں دیکھا
جن بلاؤں کو میرؔ سنتے تھے
اُن کو اس روزگار میں دیکھا
Similar Threads:
Bookmarks