دُور آفاق پہ لہرائی کوئی نُور کی لہر
خواب ہی خواب میں بیدار ہُوا درد کا شہر
خواب ہی خواب میں بیتاب نظر ہونے لگی
عدم آبادِ جُدائی میں سحر ہونے لگی
کاسہ دل میں بھری اپنی صبُوحی میں نے
گھول کر تلخی دیروز میں اِمروز کا زہر
دُور آفاق پہ لہرائی کوئی نُور کی لہر
آنکھ سے دُور کسی صبح کی تمہید لیے
کوئی نغمہ، کوئی خوشبو، کوئی کافر صورت
بے خبر گزری، پریشانیِ اُمیّد لئے
گھول کر تلخی دیروز میں اِمروز کا زہر
حسرتِ روزِ ملاقات رقم کی میں نے
دیس پردیس کے یارانِ قدح خوار کے نام
حُسنِ آفاق، جمالِ لب و رخسار کے نام



Similar Threads: