bilkul buniyadi wajah parwareesh hi hai............insan par ird-gird ka mahol buhat asr andaz hota hai....
achi tehreer hai....
انسان بے راہ روی میں دلچسپی کیوں رکھتا ہے اور مذہب سے
دوری کی کیا وجوہات ہیں ؟
پہلا سوال کے آج کا نوجوان مذہب سے کیوں دور ہے، اور
مذہب کی بجائے اپنی سوچ پر عمل کرنے پر ہی کیوں مجبور
ہے. اس سوال کے جواب میں میرے ذہن میں بس ایک ہی بات
آتی ہے، جو کہ مجھے بنیادی بات محسوس ہوتی ہے. وہ ہے
انسان کی پرورش .
انسان پیدائشی طور پر جانور ہے، فرق اتنا ہے کہ انسان
اشرفلمخلوقت ہے . سوچ ، سمجھ، عقل ، احساس رکھتا ہے،
تعلیم حاصل کر سکتا ہے، اور انسان کی سوچ، سمجھ ، عقل ،
احساسات اور تعلیم پر صرف اور صرف انسان کی عادتیں کام
کرتی ہیں، اور اچھی عادتیں انسان میں پیدا کی جاتی ہیں، نا کہ
انسان اپنے ساتھ لے کر پیدا ہوتا ہے.
انسان کی اپنے دین سے دوری کی بنیادی وجہ اسکی عادت ہی
ہے. اور یہ اسلیئے ہے کہ . جب تک ایک انسان کو بچپن سے
اچھی عادتوں میں نا ڈھالا جائے ، تو وہ چور بھی بن سکتا ہے،
جھوٹا بھی بن سکتا ہے. جعلساز بھی . اور بے ایمان بھی.
انسان کو اگر تربیت اچھی نا دی جائے تو وہ مسلمان کی بجائے
غیر مسلم بھی بن سکتا ہے . اور مسلمان بن کر اپنے انداز غیر
مسلم والے بھی ڈھال سکتا ہے. بات صرف تربیت کی ہے.
ہمارے معاشرے کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ ہم اپنی آنے
والی نسلوں میں ، مذہب کو انکی عادت نہیں بنا رہے. بلکہ
فیشن، مقابلہ اور سٹیٹس کو بچوں کی سوچ میں پیوست کر
رہے ہیں . آج کا بچہ دین کی بات کم جبکہ فیشن ، ٹیوی ،
میوزک ، سٹیٹس کی بات زیادہ کرتا ہے.
یہ ایک بنیادی سی مثال ہے . کہ اگر آپ اپنے بچے کو بچپن
سے بیٹھ کر سکون سے پانی پینے کی عادت نہیں ڈالینگے ، تو
وہ ساری عمر کھڑے ہو کر ہی پانی پیئے گا. اگر آپ بچے میں
دانت صاف کرنے کی عادت نہیں ڈالینگے ، تو وہ ساری عمر
گندہ رہنے کی عادت کو اپنائے رکھتے گا. کیوں کے یہ بات
اسکی عادت میں شامل ہو چکی ہے. بچے کو سات سال کی عمر
ہی سے نماز کی عادت نہیں ڈالینگے . تو اگلے ستر سال تک
نماز پڑھنا اسکے لئے ایک بوجھ ہی ہوگا.
اگر آپ بچوں کو بڑوں کا احترام نہیں سکھایئں گے، تو بچہ تمام
عمر چھوٹے بڑے کی تمیز نہیں کر پائے گا. آپ اپنے والدین ،
اپنے رشتے داروں، اپنے اقارب داروں سے اچھے تعلقات رکھنا
نہیں سکھا پایئں گے ، تو آئندہ آنے والی زندگی میں بچہ خود
بخود اقارب سے دوری کا خواہش مند ہوگا. اور جب ان ہی
بچوں کی شادیاں ہونگی . تو پھر آپ کو ہی ان سے شکوہ ہوگا
کہ اپنوں سے ملتے نہیں ہیں، گھر والوں سے الگ رہتے ہیں.
سب کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا نہیں ہے. بہتر ہے اپنے بچوں میں .
بچپن سے گھلنے ملنے کی عادتیں ڈالیں.
اپنے بچوں کے سامنے اگر آپ اپنے والدین کے احکامات کی
خلاف ورزی کرینگے. یا اپنے والدین کے پیٹھ پیچھے انکے
خلاف سرگوشیاں کرینگے . یا اپنے ہمسفر کی ہاں میں ہاں
ملایئں گے. تو یہ بات یقینی سی ہے کہ آپ کے اپنے بچے کل
آپ کے ساتھ ایسا ہی سلوک کرینگے. بہتر ہے کہ آپ اپنے
بچوں سے بھی اپنے والدین کی خدمات اور احترام کروایئں جس
کے نتیجے میں آپ اپنے بچوں کی اچھی پرورش کرتے ہوۓ
اپنے بڑھاپے میں اپنے بچوں کو اپنا سہارا پایئں گے .انسان
جیسا بوتا ہے ، ویسا کاٹتا ہے. یہ بات اگر کوئی سمجھنا چاہے
تو اسکے سمجھنے کے لئے یہ تھوڑی سی باتیں نا کافی نہیں
ہیں.
آپ بھی اپنے بچے کے سامنے سچ بولیں، ہمت کا مظاہرہ کریں،
ادب اختیار کریں، الفاظ سوچ سمجھ کر ادا کریں اور اسکو یہ
سکھایئں کے بری صحبت یا برے کام کسی بھی انسان کو
کامیابی سے دور لے جاتے ہیں. تو آپ کا بچہ ضرورسیکھے گا
یہ سب.
یہ ممکن نہیں ہے ، کہ آپ اپنے بچے کو صحیح راستہ نا بتایئں
اور اس سے امید یہ رکھیں کہ وہ آپ کو دیکھ کر ہی خود بخود
صحیح راستہ اختیار کر لے. ایسا بہت کم ہوتا ہے کے اس
طریقے کار سے کوئی اپنے بچے کی صحیح تربیت کر سکے .
آپ کی بیوی یا آپ کا شوہر آپ سے کہے کے اپنے والدین کو
چھوڑ دو، اپنے بہن بھائیوں کو چھوڑ دو. تو آپ ضرور سوال
کریں کہ کیا تمہاری اولاد یا تمہارے بہن بھائی، یا تمھارے
والدین تمھارے ساتھ ایسا کرینگے تو یہ بات قابل برداشت ہوگی
؟ یہ سوال عمل نا بھی کروائے ، پر کم از کم آپ کے ہمسفر کو
یہ سوچنے پر مجبور ضرور کرے گا کہ وہ دنیا میں کر کیا رہا
ہے. اور کس سوچ کا یا کی مالک ہے .
اگر آپ بچے کو شروع سے الگ کمرہ. اسکی الگ چیز ، الگ
زندگی ، اور سب سے الگ ہونے کا احساس سکھا دینگے . تو
یقینی سی بات ہے ، وہ بچہ خود کو دنیا کی الگ ہستی ہی
سمجھے گا. ایسے بچے میں سب سے جدا نظر آنے کی
خواہش پیدا ہوگی. ایسے بچے کو بڑے ہو کر یہ احساس بھی
خود ہی ہونے لگے گا کے وہ اپنے والدین سے بھی الگ فطرت
کا ہے . اسکا اپنا الگ مقام ہونا چاہئے . اپنی الگ پہچان ہونی
چاہئے . مگر ایسے کردار کو کوئی والدین قبول نہیں کرتے.
چاہے ایسا انکی اپنی پرورش کے نتیجے میں ہو رہا ہو.
لہٰذہ بے راہ روی ، اور مذہب سے دوری سے محفوظ رکھنے
کیلئے آپ بنیادی طور پر اپنے بچے کی پرورش پر دھیان دیں .
نا کہ بقیہ باتوں کو وجہ قرار دیں.
جب آپ اپنے بچے کو صحیح غلط کی پہچان کروا دینگے. تو
غلط میں دلچسپی رکھنے کے باوجود بچہ غلط بات کو غلط کہے
گا. اور خود کو غلط کام سے دور رہنے کے لئے اکساتا بھی
رہے گا. بجائے اسکے کہ آپ اپنے بچے کو ڈرا دیں کہ اوہ تم
یہ کیا دیکھ رہے ہو. میں نے تمہیں کہا تھا یہ مت دیکھو . وہ
مت دیکھو. بچے کو یہ سکھائیے کے یہ تمہارے لئے صحیح
نہیں ہے . اور اس کا نیتجہ برا ہو سکتا ہے .
یہ تمام گفتگو جو میں نے آپ سے کی. یہ چھوٹی چھوٹی باتیں
ہیں، یہ چھوٹی چھوٹی غلطیاں ہیں، کہ جو ہر دوسرا انسان کر
رہا ہے. مگر اس کے نتائج بہت شدید اور بڑے ہیں . ہمیں ایسی
پرورش آج اچھی لگ رہی ہوتی ہے. مگر آنے والی زندگی میں
ہمارے لئے ہی مشکلات کی وجہ بنتی ہے . اور پھر ہم اپنی
اولاد کے ساتھ شکوے گلوں میں مشغول ہو جاتے ہیں . تیرے
میرے تک بات آ جاتی ہے .
جب یہ چھوٹی چھوٹی غلطیاں بڑے انجام کو جنم دے سکتی
ہیں. تو سوچئے پرورش میں جو بڑی غلطیاں ہم کرتے ہیں .
انکا کیا نیتجہ نکلتا ہوگا .
شکریہ
Similar Threads:
bilkul buniyadi wajah parwareesh hi hai............insan par ird-gird ka mahol buhat asr andaz hota hai....
achi tehreer hai....
Bilkul sahi. Hume apne family me hi ek mazhabi mahol payda karna chahiye. Take fard usme habituated hon. Many thanks for this nice post.
ap ne sai kaha bilkul . thats the basic need for every human being to be grow in islamic culture.
پہلے تو مجھے یہ بتادیں کہ
یہ کیسے پتہ چلا کہ انسان بے راہ روی میں دلچسپی رکھتا ہے
دوسرا سوال جسے آپ نے پہلا سوال کہا ہے
مذہب سے دوری کا
میں یہاں کافی اختلاف کرونگا آپ کے خیال سے
وہ یہ کہ پیدائشی طور پر انسان کو جانور کس سینس میں کہا ہے ۔۔
جہاں تک مذہب سے دوری کی بات ہے تو
اہل علم اور فکر و دانش رکھنے والوں کے سامنے
صرف ایک بات رکھوں گا اس کا جواب وہ خود ڈھونڈیں
وہ یہ کہ جس معاشرے میں
ایک دین کو مختلف قسم کے مسالک اور فرقہ جات میں تقسیم کردیا جائے تو ایک
پڑھا لکھا سمجھدار شخص کس طرف جائے گا ۔۔۔
چہ جائیکہ دعویٰ ہرایک کا یہ ہوتا ہے کہ وہی سچ اور حق پر ہے
جہاں تک انسا ن کے اشرف المخلوقات ہونے کی بات ہے
یہاں میں تھوڑے سے حقائق کی طرف توجہ دلاتا چلوں کہ
انسان سے بھی اشرف مخلوق موجود ہے اس بات کا پتہ چلا ہےمجھے قرآن سے
وہاں بات کچھ اس طرح سے کی گئی ہے کہ انسان کو بہت سے مخلوقات سے افضل بنایا گیا ہے
اور اس سے مجھے یہی بات سمجھ آئی کہ انسان سے بھی بحرحال افضل کوئی مخلوق موجود ہے
باقی بعد میں
g behtar
وعلیکم السلام
انسان اگر بے راہ روی میں فطری طور پر دلچسپی نا رکھتا . تو کبھی بھی انسان کے نفس کی بات نا کی جاتی. جیسے بچے کو شرارت سے روکا جاتا ہے.اسی طرح انسان کو بے راہ روی سے روکا گیا ہے. کیوں کے جیسے بچے کی فطرت میں شرارت ہے. ایسے ہی انسان کی فطرت میں بے راہ روی میں دلچسپی ہے. اگر انسان پیدائشی طور پر سلجھا ہوا ہوتا . اور انسان کو اشرفلمخلوقات بنا کر نا بھیجا گیا ہوتا.. تو انسان بھی جانور کی طرح کسی کے زیر اثر ہوتا . یا کوئی ہمیں ہانک کے لی جا رہا ہوتا. یا ہمیں کوئی ذبح کر رہا ہوتا . شاید ہم بھی گھاس پھوس کھا کے گزارا کرتے . پیزا اور دوسری لوازمات میں ہمیں دلچسپی نہیں ہوتی . انسان کو عقل و شعور دے کر جانوروں سے جدا رکھا گیا گیا ہے. ورنہ جانور کا اصل مطلب ہے ایسی مخلوق جو جان والی ہو. انسان بھی جان والا ہے، جانور بھی جان والے ہیں، ہر وو چیز جو سانس لیتی ہے، خوراک لیتی ہے، زندہ ہے وو جاندار کے زمرے میں آتی ہے. تو انسان جانور ہی ہے. انسان اسلئے ہو گیا کہ اشرفلمخلوقت ہے . تمام مخلوقات سے افضل
اور انسان سے بڑھ کر بھی کوئی مخلوق ہے اس سے کون انکار کر سکتا ہے. فرشتے، اور ایسی لا تعداد مخلوقات جو ہمیں نظر نہیں آتی. یا جن کے ہونے سے ہم واقف نہیں. وہ لامی طور پر انسان سے افضل ہونگی.مگر پہلے آپ مجھے قرآن پاک کی اس آیت اور سورہ مبارک کا بتائیے جس کے بارے میں آپ بات کر رہے ہیں..پھر آپ سے یقینی طور پی تفصیل سے بات ہو سکتی ہے.
اور دیکھئے دین کی بنیاد عقیدے پر ہے. اور عقیدہ ہی کسی انسان کو دوسرے عقیدے سے جدا رکھتا ہے. مسلمان کا اقدا ایک الله ، ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبر اور آخری نبی حضرت محمد ص پر ہے . جو انسان اپنے عقیدے پر خود قائم نہیں رہ سکتا . اسکو کوئی دوسرا انسان کیا تعلیم دے سکتا ہے ؟ اور اسلام میں ایسی بہت سے باتیں ہیں. جو اسلام کو دوسرے مذاھب سے جدا کرتی ہیں.
اگر ہمارا ذہن قبول نا کرتا پتھروں کی پوجا بے مقصد ہے تو ہم آج تک بے مقصد عبادت کر رہے ہوتے.
رہی مسالک کی بات. تو یہ تقسیم بھی انسان کی اپنی پیدا کردہ ہے. مسلمانوں میں یہ بات شدت سے پائی جاتی ہے کہ خود تفصیلات پڑھ کر قران پاک اور احادیث مبارک پڑھ کر مذہب کو سمجھنے کی بجائے دوسرے کی اصلاح میں لگے رہتے ہیں. ابھی تو ہم خود اپنی اصلاح نہیں کر پائے ہیں . مسالک جو بھی ہوں. میرا ایمان یہ ہے کہ . میرا الله پاک ایک ہے. اور کلمہ پاک پر یقین ہے. اسلام کے پانچ بنیادی ارکان پر ایمان ہے . اگر میں بس ان کا ہی دامن پکڑ لوں. تو میرے لئے یہ ہی کافی ہے. بجائے اس کے کہ میں مسالک والوں کا گریبان پکڑوں .
کیوں کہ اسلام پھیلانا میرا فرض ہے. کون اس پر صحیح ایمان لاتا ہے . کس کے دل میں کیا آتا ہے.اس کا مالک صرف اور صرف الله پاک ہے. وہ ہی دلوں کے حال بہتر جانتا ہے. اور وہ ہی انسان کے دلوں میں حق بات پیدا کرنے والا ہے. جو بنیادی دین سے واقف ہو کر بھی مسالک کی بات کرتے ہیں. الله پاک انکے دل میں نیکی کی راہ پیدا کرے. اور انکو حق راہ دکھلائے آمین.
بس یہ چھوٹا یقین ہے میرا میرے ایمان پر. اور بس اتنا سا ہی کہ سکتی ہوں میں. اس سے زیادہ علم نہیں رکھتی مذھب کے حوالے سے
There are currently 1 users browsing this thread. (0 members and 1 guests)
Bookmarks