چھیڑا نہ کرو میرے قلم دان کے کاغذ


ہیں اس میں پڑے بندے کے دیوان کے کاغذ


اس طِفل کو بیتوں کا مری شوق ہوا تو
محسوس ہوئے سارے گلستان کے کاغذ

ہر وصلی سرکار پہ جدول ہے طلائی
اب آپ لگے رکھنے بڑی شان کے کاغذ

اس شوخ نے کل ٹکڑے زلیخا کے کیے اور
مارے سر استاد پہ پھر تان کے کاغذ

دس بیس اکھٹے ہیں خط آس پاس تو قاصد
لے جا کہ یہ ہیں سخت ہی ارمان کے کاغذ

کیا چہرۂ انشا کا ہوا رنگ، کل اس کا
یک بار جو قاصد نے دیا آن کے کاغذ
٭٭٭






Similar Threads: