جو کانوں میں میرے یہ لفظیں پڑیںبتا میں بھلا تیرا مالک نہیںمرے دل نے چپکے سے ہاں کہہ دیاکہ کچھ ا ور کہنا تو ممکن نہ تھامرے لوگ مجھ سے دور ہو گئےمرے پاس آنے سے معذور تھےمرا قید ہونا ہی تقدیر تھییہ پتھر یہ قدرت کی تحریر تھیکہ اپناؤں گھر بار کو چھوڑ کریہ زنداں یہ زنداں کے دیوارو درجو چر وا ہے اپنے میں دور ہوںتو اس حال کو زندگی کیوں کہوںخداوند میرے تو یہ حکم دےکہ اب ماروی مارووں سے ملےلکھی تھی مری زندگانی میں قیدہوئی رنج و درد و مصیبت کی صیدکتاب مقدس میں ہے جو بیاںمرا من ترے پاس تن ہے یہاںیہی اک دعا ہے خداوند سےوہ قدرت سے اپنی یہ ساماں کرےعزیزوں سے اپنے میں جا کے ملوںشب و روز بیٹھی یہ سوچا کروںجو لکھا گیا پھر نہ بدلا گیاقلم ہو گیا خشک تقدیر کاتراوش ہوئی کلک تقدیر سےکہ مارو تو کانٹے چنیں دشت کےادھر میں الگ اس طرح سے جیوںکہ ان بالا خانوں میں بیٹھی رہوںعزیزوں سے دوری وطن کا تیاگلگا دوں نہ ان اونچے محلوں میں آگہر اک شے کہیں بھی ہو کیسی بھی ہوپلٹتی ہے اپنی قدیم ا صل کومرے دل پہ بھاری ہے انکا بجوگکہاں ہیں کہاں ہیں وہ صحرا کے لوگیہاں انکے آنے کی صورت بنےکہ مالیر جانے کی صورت بنےنے پیامی ہے یہ پیغام عزیزاں کوئیگرد صحرا سے نہ ابھرے گا شتر باں کوئیمیرے اللہ مری حسرت دیدار کو دیکھبھیج اس دیس میں اس دیس کا مہماں کوئیخوش ہوں مسرور ہوں یہ راہیں یہ قلعے یہ حصارآئے پھر قطع مسافت کی جولاں کوئیدھوؤں ان آنکھوں اے اس کے قدم گرد آلودجان سکتا ہے مرے شوق کا پایاں کوئیددر افتادہ ہوں ، محبوس ہوں، غم دیدہ ہوںلوگو اس درد کی تسکین کا ساماں کوئیلے نویدیں لیے آیا کوئی ڈاچی دالااپنے محبوب کو یادوں سے فراموش نہ کرایسی پاگل تو نہ ہو لوٹ کے آئے گا یہاںایک پل کے لیے قلعے میں ٹھرا ،ا ور ٹھرایک ہی پل کے لیے قلعے میں رہنا ہے تجھےدیکھنا تجھ سے نہ کملی یہ پرانی چھوٹےپیاری من موہنی اونچا ہے گھرانہ تیراوضع مت چھوڑنا دل دکھتا ہ مانا تیراسوئے مالیر بھی ہوگا کبھی آنا تیرامیرے بابل کے یہاں سے کوئی آ خر آیاکون آیا ہے خدارا اسے لاؤ لاؤاس کے قدموں پہ میں گر جاؤنگی ہو کا بھر کےاس کو دکھلاؤنگی اس دل کے یہ آلے گھاؤمیرا کچھ دوش نہیں بات یہ میری مانواپنی مرضی سے نہ آئی ہوں نہ ہر گز آئیخداوندا وہ گلہ بان ماڑومجھے اپنا لیں ،میری لاج رکھ لیںمیں کتنی بھی بری ہوں ہاں بری ہوںوہ لطف و مہر بانی سے نہ گزریںادھر مالیر میں برکھا ہوئی ہےپرندے چہچہاتےا ڑ رہے ہیںمرے کپڑوں کا عالم دیدنی ہےکہ میلے ، بے تکے ، اوگن بھرے ہیںتو عیبوں کا چھپانے والا ٹھراخدا وندا تو میری لاج رکھنامری چولی میں ٹانکے سیکڑوں ہیںمری کملی پرانی ہے پھٹی ہےچھوئی پونی ، نہ گز بھر سوت کاتاکہ آس اپنے عزیزوں سے لگی ہےجو دہت میں میں نے پہنے تھے وہ کپڑےمرے تن کے لیے کافی رہیں گےمیری چولی میں ٹانکے سیکڑوں ہیںمری کملی پرانی ہے پھٹی ہےکسی دن بھی بال اپنے سنوارےپریشاں زلف خوشبو کھو چکی ہےکبھی مارد کے مکھڑے کو میں دیکھوںفقط دل میں یہی حسرت بسی ہےمیں پھر صحرا میں اپنے گھر میں پہنچوںکہ یہ جینا بھی کوئی زندگی ہےمری چولی میں ٹانکے سینکڑوں ہیںمری کملی پرانی ہے پھٹی ہےاسی عالم میں میں صحرا میں پہنچوںمرے دل میں جو حضرت یہی ہےکہ مارو مجھ کو دیکھیں ا ور یہ جانیںمیں جیتی تھی امیدوں کے سہارےکہ ہم آئیں گے اس کی سا ر لیں گےچھڑائیں گے غم زنداں سے بارےہوا ہے جس جگہ سے میرا آ ناکسم کا پھول واں کھلتا نہیں ہےجہاں شادی کے میلے ہوں وہاں بھیمجھے کملی سوا جامہ نہیں ہےنہ بالوں کو دھونا دھلانا اسےنہ ہنسنا ، نہ پینا ، نہ کھانا اسےعمر ماردی گیت گاتی پھرےتری داد کے ، تری بیداد کےترا ظلم بخشا نہیں جائے گایہ اک دن ترے سامنے آئے گانہ بالوں کو پانی دکھانا اسےنہ زلفوں کی بگڑی بنانا اسےوہ ہانکے وہ سبزہ گیہوں کے مکیںانہیں ماردی بھول سکتی نہیںعمر ماردی کو کہاں یہ پسندکہ بیٹھی رہے تیرے محلوں میں بندنہ بالوں میں پانی دکھانا اسےنہ زنداں سے باہر ہی جانا اسےاسے بھائے کیا مارووں کے بنایہ صابن ، یہ خوشبو ،یہ عطر حناکٹھن ہے یہ اس کیلئے زندگیکہ گوری ہے دیہات کی ماردینہ بالوں کو پانی دکھانا اسےنہ بھولے سے بھی مسکرانا اسےہے کانوں میں اس کے صدا گونجتیصدا اے اے عمر تیرے انصاف کیشکایت کرے ہے وہ اندد ہگیںمرے لوگ مجھ پاس آتے نہیںاداسی پہ مائل ہوئی ماردیغم دل کی گھائل ہوئی ماردییہ الجھے سے گیسو ،یہ چہرہ اداسوہ اٹھتی جوانی کی لوہے نہ باسغموں نے اڑا دی ہے چہرے کی آباداسی سے سنولا گیا ہے شبابلطیف اسکے پنڈلے کو لو جو لگیاڑی باس خوشیوں کے کافور کیوہ گوری کہ من جس کا بھاری رہےخوشی کس طرح اس کو پیاری رہےبھلا چھٹ پیاروں سے جیسا ہے کھیلنہ مسکان لب پر نہ بالوں میں تیلجدھر اس کا مالیر آباد ہےادھر رخ ہے ہونٹوں پہ فریاد ہےمیں مارد کی سمرد میں مارو کی ہوںترے گھر کی خوشیوں کو خوشیاں کہوںیہ پھانسی کا پھندا ہیں پھانسی کا جالمیں تیری بنوں یہ تو ہونا محالمرے دل کے وہ لوگ مالک ہوئےچھڑانا ہے مشکل اسے قید سےجدھر اس کا مالیر آباد ہےادھر رخ کہے وقف فریاد ہےاسے ماروں نے جو دی تھی کبھیابھی پاس اس کے ہے کملی وہیتو اس کو تو سمرو نہ زنجیر کوکہ مشکل ہے اس کا من آنا ادھرجدھر میرا مالیر آباد ہےادھر قبلۂ جان ناشاد ہےمیں قلعے پہ چڑھ کے پکاری بہتمیں کرتی رہی آہ و زاری بہتکسی نے نہ لیکن سنی یہ فغاںمرا درد سنتا ہے کوئی کہاںعمر جس کا من ہو دکھی ہو اداساسے بھائیں کیسے یہ اجلے لباسپیا اپنے صحرا میں آہیں بھریںغموں میں گرفتار نالے کریںوہ ناری ہے اسے سمرو ناری کہاںوہ اپنے پیا کی ہے پیاری کہاںجو الفت کے قول و قسم توڑ دےجو پی سے خیال وفا چھوڑ دےمرے پی پہ بھاری یہ ٹھنڈی ہواترے نرم گدوں پہ سووؤں میں کیاعمر میرے کپڑوں پہ ہنستا ہے کیوںگدیلوں پہ آرام کیسے کروں ؟جو پی میرا صحرا میں آہیں بھرےغموں میں گرفتار نالے کرےعمر اپنے شربت کے شیشےا ٹھاعزیزوں میں پیا سے ہی رہنا بھلامرا دل ہے انہیں کے ساتھ سائیںجو جنگل کے دہاتوں کے مکیں ہیںمجھے چھوڑے تو انکے پاس جاؤںان ہی کا سا پیوں ، ان کا سا کھاؤںجہاں تک سائیں دنیا میں جیوں گیاسی پیارے کے قدموں پر چلوں گیمیں بے تقصیر بیٹھی جی کھپاؤںیہی سوچوں کہ دیس اپنے کو جاؤںان ہی پیاروں عزیزوں سے ملوں میںجو موٹے جھوٹے کپڑوں ہی میں خوش ہیںمیں اس کملی کو چھوڑوں کیسے چھوڑوںاس آرام ا ور راحت کی طلب میںجو دو دن کے لیے ہے پھر نہیں ہےکہاں گیا مرا حسن اے سمرو چہرا میرا میلاقسمت نے میرا روپ انیلا چھین لیا سب لوٹااے سمرو اک بار کسی کا روپ اگر لٹ جائےلاکھ جتن کر دیکھے لیکن پھر وہ بات نہ پائےکھو کے میں اپنا روپ اے سمرو دیس اپنے کیا جاؤںاپنے نگر لے چرواہوں کو کیسے مکھ دکھلاؤںجیسے تھا یاں آنا میر ویسے ہی میرا جا نااکثر جیسی برستی بوندیں پل پل ہے شرما ناان اونچے چوباروں میں جو جیون کے دن بیتےزحمت ، ذلت ا ور ستم تھے مجھ کو وہ یاد رہینگےمجھ کو تو بس پی کی ہے چاہت لیکن میں شرماؤںکس منہ سے اونچا کر کے ماروں آگے جاؤںمجھ کو کہیں تو دفن ہی کر دے اے سمرو اے بیریمیں نے یہاں پر آ کر چھوڑ ی ریت وہ چرواہوں کیکاش کہ یہ پیدا ہی نہ ہوتی ہوتی تو مر جا تیعمر کوٹ میں آ کر اس نے جیتی یہ بد نامیچوباروں میں بیٹھی کڑھتی ایسے وقت گزارےچرواہوں کی مدد کی خاطر پل پل پڑی پکارےاے اللہ تو سنے جو میری قید ہی میں مر جاؤںدن کو تو بیٹھی روؤں دھوؤں شب کو بھی چین نہ پاؤںلیکن مجھ کو موت سے پہلے گھر میرا دکھلا دےکیا دھوؤں میں کپڑے اپنے میلے اور پرانےمٹی میں ملی عزت میری مالک میرے کرم کرسمرو ہے بڑی طاقت والا رحم والا اسے مجھ پرگاؤں میں اپنے ہوگا وہ بانکا بیٹھی سوچ رہی ہوںمجھ کو پی سے آس لگی ہے کب جاؤں اسے دیکھوںگھر والوں تک بات نہ پہنچی میری اس بپتا کیورنہ یہ قیدی قید میں اپنے اتنی بیا کل ہو تی ؟بھول گئے مجھے مارو شاید گھر کی یاد ستائےاچھا ہے یوں ہی یاد میں ان کی موت مجھے آ جائےلاش کو میری مالک میرے کھر میرے پہنچا نامر کے چین ملے کچھ شاید مارووں میں دفنا ناقبر مری مالیر ہو تو میں تو یہی سمجھوں گیموت نہیں ہے جیون ہے یہ چین سے میں سوؤں گیانہیں میں سمرو کیسے بھول جاؤںکہ وہ گلے چرانے والے پیارےمیرے جیون میں رگ رگ میں بسے ہیںبھلانا ان کا آساں تو نہیں ہےمحبت ان کی دل میں جا گزیں ہےبہت دن ہو گئے ہیں مجھ کو دیکھےوہ گلے بان وہ ان کے گھروندےیہ جامے ریشمیں ، نرما ور ملائمبھلا اس کے شایاں ہیں سمروکہ چروا ہے کی بی بی ان کو پہنےوہ موٹے کھردرے جاموں کو اپنےکہیں جو لاکھ ہی رنگ دے لےتو شالوں سے ہو بڑھ کر انکی شو بھانہ اون ان کے برابر کی نہ مخملکوئی کپڑا نہ ان کو پہنچے سمرومرا کمبل کہ موٹا کھردرا ہےمجھے ہی سارے جاموں سے بھلا ہےمیں یہ اپنے قبیلے کی نشانییہ کمبل، کیوں اتاروں اس سے پہلےیہ بہتر ہے کہ موت آ جائے مجھ کوہوئے پھر تازہ یادوں کے وہ گھاؤمجھے ان گاؤں والوں کی جدائیبہت ہی مضطرب رکھتی ہے سمرومرے دل میں ابھی انکی جگہ ہےجو صحرا کے گھروندوں کے مکیں ہیںجہا مارو کا پیارے کا ہے ڈیراخدا یا اس جگہ تو مجھ کو پہنچانہ تم جی کو دکھاؤ میرے پیارےنہ یوں آنسو بہاؤ میرے پیارےجہاں غم کا ہے دکھ کا ہے بسیراوہیں دیکھو گے پھر خوشیوں کا ڈیراجہاں دکھ ہیں وہاں سکھ بھی گورییہ چروا ہے کا دل بھی جانتا ہےوفا پر تو جو یوں قائم رہے گیتو یہ مجلس، یہ زنداں چیز کیا ہےترا دل نا امیدی میں نہ بھٹکےیہ زنجیریں تو گر جائیں گی کٹ کےمن میرے کا مالک مارومار و کا من میراکیوں اپنا منہ دھوؤں میں سمرومالک مرا کہے گااجنبیوں میں گئی تھی تو کیامنہ دھونے خوش ہونےلے میں چلی اب پی کے ڈیرےھوڑ کے رونے دھونے ( ترجمہ عبداللطیف بھٹائی )
Similar Threads:
There are currently 1 users browsing this thread. (0 members and 1 guests)
Bookmarks