لیلا۔۔ تو نے کیوں محو کیا ہے انہیں لوح دل سے
حاصل زیست سمجھتے ہیں جو پیارے تجھ کو
اے مرے و سرو کنور ؛ میرے چنسیر راجہ
دل مرا آج بھی رو رو کے پکارے تجھ کو
ان کے زخموں پہ مدھر بولوں کا مرہم رکھنا
اب بھی اپنا جو سمجھتے ہیں بچارے تجھ کو
ان کو خلقت کی نگاہوں نہ رسوا کر نا
واسطہ دیتی ہوں جینے کے سہارے تجھ کو
میں تری پیت کی ماری ہوں بچاری ابلا
کچھ خیال آتا ہے اس بات کا بارے تجھ کو
تیری سو رانیاں ،تو میرا اکیلا پتیم
دل بسارے تو بھلا کیسے بسارے تجھ کو
شاہ لطیف۔۔
ایک ادنی سا گلو بند تھا جس کی خاطر
کھو دیا دل کے خداوند کو ناداں تو نے
تجھ سے بر گشتہ ہوا تیرا چنبر راجا
کپٹی کو نرو سے کیا ایک جو پیماں تو نے
اپنی قسمت کا عجب ا لٹا ہے صفحہ غافل
بات کی ہے بڑی رسوائی کے شایاں تو نے
چل گیا ادنی سے زیور کی ڈلک کا جادو
جانے کیا سمجھا تھا چاہت کو مری جاں تو نے
لیلا،،،،،میں یہ سمجھتی تھی کہ یہ ہا ر مرصع رتنار
ہاتھ آئے تو مرا روپ سوایا ہو گا
یہ نہ سمجھی تھی کہ یہ ہار ہے ظالم بیری
کپٹی کنرو نے کوئی جال بچھا یا ہوگا
شاہ لطیف،،، چل ذرا ڈال کے اب اپنے گلے میں پلو
ڈھونڈ اس چیز کو جو کھوئی ہے لیلا نے
شاید اب تجھ سے بنا لے تجھے پھر اپنا لے
عذر اس سے کو کیا عاجزو گریاں تو نے
پھر بھی مقصود مبارک نہ جو دل کا پا یا
درگہ یار سے محبوبہ کیا حیراں تو نے
یوں ہی فریاد کناں عفو کی طالب رہنا
ہاں جو چھوڑا کہیں امید کا داماں تو نے
ایک لغزش سے گنوایا ،نہ گنوایا ہو تا
اپنے محبوب کا الطاف فرا واں تو نے
رکھنا فریاد فغاں اب بھی وظیفہ اپنا
زیست کرنی ہے اگر زود پشیماں تو نے
لیلا۔۔۔ گن جو ہیں ایک زمانے کے گنائے تم نے
تم سمجھتے ہو کہ مجھ میں کوئی خوبی ہی نہ تھی
اپنی بخشش سے نوازو مجھے پتیم پیارے
کیوں کوئی ا ور بنے دل کی تمہارے رانی
میں نے سوچا ہے بہت سوچا یہ آ خر پا یا
دہر میں سوختہ جانوں کا مقدر ہے یہی
جس پہ غصے کی نگہ ہو تری پتیم پیارے
باندی بن جائے جو رانی ہو چہیتی رانی
آج میں در پہ ترے آئی ہوں سرو پیارے
اپنا اک عمر کا سرمائہ عصیاں لے کر
تو جو آزردہ ہے کیوں آؤں میں در پہ تیرے
دل آشفتہ و مجبور و پریشاں لے کر
( ترجمہ شاہ عبد اللطیف بھٹائی )



Similar Threads: