لائوں وہ تنکے کہیں سے آشیانے کے لیے
بجلیاں بیتاب ہوں جنکو جلانے کے لیے
وائے ناکامی فلک نے تاک کر توڑا اسے
میں نے جس ڈالی کو تاڑا آشیانے کے لیے
تشریح: حضرت اقبال فرماتے ہیں کہ میں اس گھر کی اس وطن کی تعمیر کے ایسے افراد کو ڈھونڈ رہاں ہوں جو باصلاحیت تو ہوں ہی ساتھ ساتھ اتنی ہمت بھی رکھتے ہوں کے اس گھر کو توڑنے والوں کو سبق سکھا سکیں۔ پھر فرماتے ہیں کہ میری محرومی کا عالم یہ ہے جس شاخ کو میں نے آشیانے کے لیے چنا ، فلک کج رفتار نے اسی کو مشق ستم بنا دیا
آنکھ مل جاتی ہے ہفتاد و در ملت سے تری
ایک پیمانہ ترا سارے زمانے کے لیے
دل میں کوئی اس طرح کی آرزو پیدا کروں
لوٹ جائے آسماں میرے مٹانے کے لیے
تشریح: حضرت اقبال ان دونوں اشعار میں افراد کے وسعتِ قلبی کے حوالے سے کہتے ہیں کہ اگر ہم سب مذاہب کو ایک ہی نظر سے دیکھیں تو اختلاف اور ترقہ کی گنجائش نہیں رہتی۔ اقبال تفرقی بازی سے نکل کر ایک ہونے کی بات کر رہے ہیں۔۔۔
جمع کر خرمن تو پہلے دانہ دانہ چن کے تُو
آہی نکلے گی کوئی بجلی جلانے کے لیے
پاس تھا ناکامی صیاد کا اے ہم صفیر
ورنہ میں اور اُڑ کے آتا ایک دانے کے لیے ؟
تشریح: اس غزل کے تمام اشعار میں ایک کلاسیکی رنگ نمایاں ہے۔۔ اقبال ایک ہونے کی بات کرتے ہیں اور ایک جگہ اپنے کسی دوست سے مخاطب ہو کر فرماتے ہیں کہ مجھے اپنے دشمن کی ناکامی کا پاس تھا ورنہ ایک پرندے کی طرح میں محض ایک دانے لیے اپنی آزادی سے محروم کیوں ہوتا
Similar Threads:
عمدہ انتخاب اور لاجواب شیئرنگ کا شکریہ
آپ کی مزید اچھی اچھی پوسٹس کا انتظار رہے گا
اعتماد " ایک چھوٹا سا لفظ ھے ، جسے
پڑھنے میں سیکنڈ
سوچنے میں منٹ
سمجھنے میں دِن
مگر
ثابت کرنے میں زندگی لگتی ھے
There are currently 1 users browsing this thread. (0 members and 1 guests)
Bookmarks