طبیعت ان دنوں بیگانۂ غم ہوتی جاتی ہے
میرے حصے کی گویا ہر خوشی کم ہوتی جاتی ہےقیامت کیا یہ، اے حسنِ دو عالم! ہوتی جاتی ہےکہ محفل تو وہی ہے دلکشی کم ہوتی جاتی ہےوہی میخانہ و صہبا، وہی ساغر، وہی شیشہمگر آوازِ نوشا نوش مدھم ہوتی جاتی ہےوہی ہے شاہد و ساقی مگر دل بجھتا جاتا ہےوہی ہے شمع لیکن روشنی کم ہوتی جاتی ہےوہی ہے زندگی لیکن جگرؔ یہ حال ہے اپناکہ جیسے زندگی سے زندگی کم ہوتی جاتی ہے٭٭٭
Similar Threads:
Bookmarks