جب تری خواہش کے بادل چھٹ گئے
ہم بھی اپنے سامنے سے ہٹ گئےرنگِ سرشاری کی تھی جِن سے رَسَددل کی ان فصلوں کے جنگل کٹ گئےاک چراغاں ہے حرم میں دیر میںجشن اس کا ہے دل و جاں بٹ گئےشہرِ دل اور شہرِ دنیا الوداعہم تو دونوں کی طرف سے کٹ گئےہو گیا سکتہ خرد مندوں کو جبمات کھاتے ہی دوانے ڈٹ گئےچاند سورج کے عالم اور واپسی
وہ ہوا ماتم کہ سینے پھٹ گئے
کیا بتائیں کتنے شرمندہ ہیں ہمتجھ سے مِل کر اور بھی ہم گھٹ گئے
Similar Threads:
Bookmarks