کبھی کبھی تو بہت یاد آنے لگتے ہو
کہ رُوٹھے ہو کبھی اور منانے لگتے ہو
گِلہ تو یہ ہے تم آتے نہیں کبھی لیکنجب آتے بھی ہو تو فوراً ہی جانے لگتے ہویہ بات جونؔ تمہاری مذاق ہے کہ نہیںکہ جو بھی ہو اسے تم آزمانے لگتے ہوتمہاری شاعری کیا ہے بھلا، بھلا کیا ہےتم اپنے دل کی اُداسی کو گانے لگتے ہوسرودِ آتشِ زرین صحنِ خاموشیوہ داغ ہے جسے ہر شب جلانے لگتے ہوسنا ہے کاہکشاؤں میں روز و شب ہی نہیںتو پھر تم اپنی زباں کیوں جلانے لگتے ہو
Similar Threads:
Bookmarks