Originally Posted by intelligent086 اب کیا ہے جو تیرے پاس آؤں کس مان پہ تجھ کو آزماؤں زخم اب کے تو سامنے سے کھاؤں دشمن سے نہ دوستی بڑھاؤں تتلی کی طرح جو اُڑ چکا ہے وہ لمحہ کہاں سے کھوج لاؤں گروی ہیں سماعتیں بھی اب تو کیا تیری صدا کو منہ دکھاؤں اے میرے لیے نہ دُکھنے والے! کیسے ترے دُکھ سمیٹ لاؤں یوں تیری شناخت مجھ میں اُترے پہچان تک اپنی بھُول جاؤں تیرے ہی بھلے کو چاہتی ہوں میں تجھ کو کبھی نہ یاد آؤں قامت سے بڑی صلیب پاکر دُکھ کو کیوں کر گلے لگاؤں دیوار سے بیل بڑھ گئی ہے پھر کیوں نہ ہَوا میں پھیل جاؤں *** Nice Sharing ..... Thanks
Originally Posted by Admin Thanks for sharing Keep it up .. Originally Posted by Dr Danish Nice Sharing ..... Thanks
There are currently 1 users browsing this thread. (0 members and 1 guests)
Forum Rules
Bookmarks