شام آئی، تری یادوں کے ستارے نکلے
رنگ ہی غم کے نہیں ، نقش بھی پیارے نکلے
ایک موہوم تمّنا کے سہارے نکلے
چاند کے ساتھ ترے ہجر کے مارے نکلے
کوئی موسم ہو مگر شانِ خم و پیچ وہی
رات کی طرح کوئی زُلف سنوارے نکلے
رقص جن کا ہمیں ساحل سے بھگا لایا تھا
وہ بھنور آنکھ تک آئے تو کنارے نکلے
وہ تو جاں لے کے بھی ویسا ہی سبک نام رہا
عشق کے باب میں سب جُرم ہمارے نکلے
عشق دریا ہے، جو تیرے وہ تہی دست رہے
وہ جو ڈوبے تھے، کسی اور کنارے نکلے
دھوپ کی رُت میں کوئی چھاؤں اُگاتا کیسے
شاخ پھوٹی تھی کہ ہمسایوں میں آرے نکلے
***
Similar Threads:



Attention Guest, if you are not a member of Urdu Tehzeb, you have 1 new private message waiting, to view it you must fill out
Reply With Quote






Bookmarks